pin up casinomostbet1winpin up

قارئین کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہو گی کہ دنیا کی سپر پاور امریکہ کو ایک آزاد مملکت کے طور پر سب سے پہلے برطانیہ ، آسٹریلیا، چین، روس یا یورپ کے کسی اور ملک نے نہیں بلکہ موراکو کے سلطان محمد بن عبداللہ نے 1777میںقبول کیا ۔ ان کے اور امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کے درمیان ہونے والی خط و کتابت تاریخ کا انمول حصہ ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وائٹ ہاﺅس میں 9دسمبر 1805کو امریکی صدر تھامس جیفرسن نے تیونس کے سفراءکے اعزاز میں پہلا افطار ڈنر منعقد کیا۔ عیسائیت اور یہودیت کے بعد اسلام امریکہ کا تیسرا بڑا مذہب ہے۔ امریکہ کے 1.2فیصد لوگ مسلمان، جبکہ 70.6فیصد عیسائیت، 1.9فیصد یہودی، 0.5فیصد بدھ ازم، 0.7فیصد ہندو اور 22.1فیصد افراد یہودی ہیں۔ ایک حالیہ اندازے کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی قریبا 33لاکھ ہے۔ اس کا ایک چوتھائی پیدائشی طور پر مسلمان افریقی نژاد امریکی ہیں۔ باقی کا زیادہ تر حصہ ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے پچھلے 70برس میںاسلام قبول کیا ہے۔ مسلمان ملکوں سے آنے والے نو آباد افراد بھی اسی آبادی کا حصہ ہیں۔کالونیل دور میں امریکہ میں افریقہ سے لائے جانے والے غلاموں کا 10فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ 19ویں صدی سے قبل اسلام کو امریکہ میں بہت زیادہ دبایا گیا اور اس دور میںامریکی آزاد مسلمان وہی لوگ تھے جو تاجر ، مسافر یا جہاز رانوں کی صورت میں امریکہ میں داخل ہوئے تھے۔ 1880سے 1914تک امریکہ میں کئی ہزار مسلمان ہجرت کر کے داخل ہوئے ان میں عثمانی سلطنت اور مغل سلطنتوں سے آنے والے مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ آج امریکہ میں موجود مسلمانوں کا 72فیصد انہی مہاجرین پر مشتمل ہے۔ امریکی حکومت کا مسلمانو ں کے لیے رویہ حالیہ دہائیوں میں بے حد دوستانہ رہا ہے اسی لیے 2005میں 96000اور 2009میں 115,000مسلمان مہاجرین کو امریکہ میں مستقل سکونت اور شہریت کے سرٹیفکیٹ عطا کیے گئے۔
امریکہ کے دوسرے صدر جان ایڈمز نے حضرت محمد ﷺ کو کنفیوشس اور سقراط کے ساتھ دنیا میں سچائی کے سب سے عظیم متلاشیوں میں شمار کیا تھا۔ م±لک کے تیسرے صدر اور اعلانِ آزادی کے م±صنف تھامس جیفرسن نے خود اپنے پاس موجود قرآن کے نسخے سے عربی زبان سیکھی ۔ امریکہ کے ان بانی اجداد نے مسلم تہذہب سے بہت سے اصول بھی لئے تھے جن میں دیگر اصولوں کے علاوہ امریکہ کے سیاسی اور عدالتی نظام کی تشکیل کا انداز بھی شامل ہے۔اسلام دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ امریکہ اور یورپ میں بھی مسلمانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور بہت سے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ سی این این کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2030 میں امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد دگناسے بھی زیا دہ ہو جائے گی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی ممالک میں بھی تیزی کے ساتھ اسلام پھیل رہا ہے اور سپین کے ایک شہر میں مسلمانوں کی تعداد 40 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 1990 تک دنیا میں مسلمانوں کی تعداد 1.1بلین تھی جو کہ 2030 تک 2.2 بلین سے بھی بڑھ جائے گی۔ یورپی مبصرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ آج سے 20 برس بعد یورپ میں موجود کیتھولک کی بڑی تعداد اسلام قبول کر لے گی۔آبادی میں اضافے کے حوالے سے اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو اگلے چار عشروں میں دنیا کی آبادی 9 ارب تیس کروڑ تک پہنچ جائے گی اور اس رفتار سے 2070ء تک اسلام سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ جب کہ عیسائیوں کی آبادی 35 فیصد بڑھے گی اور ہندوو¿ں کی تعداد میں 34 فیصد اضافہ ہو گا۔اس وقت مسلمانوں میں بچے پیدا کرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے یعنی اوسطاً ہر خاتون 3عشاریہ ایک بچوں کو جنم دے رہی ہے۔ عیسائیوں میں ہر خاتون اوسطاً 2عشاریہ 7 بچوں کو جنم دے رہی ہے اور ہندوو¿ں میں بچے پیدا کرنے کی اوسط شرح 2 عشاریہ چار ہے۔آنے والے عشروں میں عیسائی مذہب کو سب سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔چار کروڑ افراد عیسائی مذہب اپنا لیں گے وہیں دس کروڑ 60 لاکھ لوگ اس مذہب کو چھوڑ دیں گے۔ اسی طرح ایک کروڑ 12 لاکھ لوگ اسلام کو اپنائیں گے وہیں تقریباً 92 لاکھ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں گے۔2010ءمیں پوری دنیا کی 27 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر کی تھی، وہیں 34 فیصد مسلمان آبادی 15 سال سے کم کی تھی اور ہندوو¿ں میں یہ آبادی 30 فیصد تھی۔ اسے ایک بڑی وجہ سمجھا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کے مقابلے زیادہ تیز رفتار سے بڑھے گی اور ہندو اور عیسائی اسی رفتار سے بڑھیں گے جس رفتار سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے۔
ایک نئی جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان اس بارے میں واضح اختلاف ہے کہ آئندہ آنے والے امریکی صدر کو اسلامی انتہا پسندی کے معاملے کو کس طرح مخاطب کرنا چاہیئے۔ ‘پیو ریسرچ سینٹر’ کے مطابق 65 فیصد ریپبلکنز یا اس کی طرف جھکاو¿ رکھنے والے چاہتے ہیں کہ نئے صدر اسلامی انتہا پسندی کے بارے میں دوٹوک بارے کریں حتیٰ کہ مجموعی طور پر اسلام کے بارے میں جذبات کتنے ہی حساس کیوں نہ ہوں۔ تاہم 70 فیصد ڈیموکریٹس یا اس کی طرف رجحان رکھنے والوں کا خیال ہے کہ نئے صدر کو زیادہ محتاط انداز اپنانا چاہیے۔ بحیثیت مجموعی تقریباً نصف امریکی شہری چاہتے ہیں کہ نئے صدر اسلامی انتہا پسندی سے متعلق بات کرتے ہوئے اسلام کی کلی طور پر مذمت نہ کریں ۔ یہ سروے گزشتہ ماہ منعقد کیا گیا تھا جس کے نتائج میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اس میں شامل لوگوں کی لگ بھگ نصف تعداد یہ ماننا ہے کہ بعض مسلمان شہری امریکہ مخالف رویہ رکھتے ہیں۔ ان میں وہ 11 فیصد لوگ بھی شامل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تقریباً سب ہی امریکی مسلمان امریکہ مخالف ہیں۔امریکہ میں صدارتی امیدوار کی نامزدگی میں شامل امیدواروں خصوصاً ریبپلکن ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلمانوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کے بیان اور حالیہ مہینوں میں یورپ کے مختلف ملکوں میں دہشت گردانہ واقعات کے بعد مذہبی انتہا پسندی سے متعلق رجحان میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ بدھ کو صدر براک اوباما نے اپنے عہدِ صدارت کے دوران پہلی مرتبہ ملک میں کسی مسجد کا دورہ کیا تھا اور وہاں خطاب کے دوران اسلام کے تشخص کے بارے میں پائے جانے والے “منفی رجحان” پر بات کرتے ہوئے کہا بہت ہی محدود تعداد کے لوگوں کے فعل کا “الزام پوری مسلمان برادری پر عائد کیا جانا درست بات نہیں۔” بالٹی مور کے علاقے میں ایک مسجد کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے حاضرین کو یقین دلایا کہ مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد باتیں کرنے والوں کی امریکا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ امریکی صدر نے واضح کیا کہ کسی ایک عقیدے کے خلاف حملے کو تمام عقائد کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور حکومت ایسی صورت میں محض خاموش تماشائی نہیں رہے گی۔مسجد کے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ مساجد امریکا میں طویل عرصے سے قائم ہیں اور ان کا وجود پورے امریکا میں ہے۔صدر اوباما نے کہا کہ وہ مسجد میں آنے والے پہلے امریکی صدر نہیں ہیں جنھیں مسلمان بھی کہا گیا ہے بلکہ تاریخی امریکی صدر تھامس جیفرسن کو بھی ان کے مخالفین مسلمان کہتے تھے۔ یہ مساجد ہی ہیں جہاں بہت بھاری تعداد میں مسلمان آتے ہیں جو دیگر عقائد کے ساتھ افہام و تفہیم کے پ±ل تعمیر کرتے ہیں اور عیسائیوں اور یہودیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نیز وہ صحت کے مراکز بھی چلاتے ہیں اور بچوں کو تعلیم بھی دیتے ہیں۔
امریکی صدر نے تسلیم کیا کہ اس وقت امریکی مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر انھوں نے تشویش ظاہر کی۔ صدر اوباما نے کہا کہ زیادہ تر امریکیوں کو مسلمانوں یا اسلام کے بارے میں کوئی علم نہیں بلکہ انھیں صرف اس وقت پتہ چلتا ہے جب کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہوتی ہے جس پر غیر ذمے دار عناصر مسلمانوں پر الزام لگا دیتے ہیں جس میں میڈیا‘ ٹی وی اور فلمیں بھی اسی الزام کی تشہیر کرتی ہیں۔ صدر اوباما نے کہا اس وقت جو آیندہ انتخابات کے لیے مہم جاری ہے اس میں مسلمانوں کے خلاف اتہام طرازی کی جا رہی ہے جو ہر گز قابل معافی نہیں ہے۔ صدر اوباما نے کہا انھیں اس بات کا علم ہے کہ وہ جس مسجد میں آئے ہیں اس پر دو مرتبہ حملہ ہو چکا ہے جب کہ مسلمان بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ امریکا میں دیگر مقامات پر بھی مساجد کی توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ صدر اوباما نے کہا اسلام شروع ہی سے امریکا میں موجود ہے اور پرانے زمانے میں جن کو غلام بنا کر یہاں لایا جاتا تھا ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، جنھوں نے اپنا مذہب قائم رکھا۔ صدر اوباما کا خطاب فکر انگیز ہے اور امریکا کے معاشرتی اور سیاسی تضادات کو ظاہر کرتا ہے‘ امریکا کے بااثر سیاستدانوں کا ایک گروہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہے جن کا نمایندہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ آج حجاب پہننے والی مسلم خواتین کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے،چند لوگوں کی وجہ سے تمام مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو پریشان دیکھ کر دل دکھی ہوتا ہے۔امریکہ میں مسلمان بچیاں میری بیٹیوں کی طرح ہیں۔امریکی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔مذہب اسلام ہمیشہ سے امریکہ کا حصہ رہا ہے۔ امریکہ کی ترقی میں کردار ادا کرنے والوں کے شکر گزار ہیں۔ باکسر محمد علی کلے اور کریم عبد الجبار امریکی تاریخ میں ہیرو تصور کیئے جاتے ہیں۔صدر نے کہا کہ مسلمان امریکی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں محنت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صدر اوباما نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا میں مسلمانوں کی مثبت تصویر کشی کی جائے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ القاعدہ اور داعش نے مختلف ممالک میں جتنے لوگوں کو ہلاک کیا ان میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ انہو ںنے کہاکہ ابراہیمی مذاہب کے پیروکاروں کو چاہیے کہ ایک دوسرے سے صلح سے رہیں، کسی ایک مذہب پر حملہ سارے مذاہب پر حملہ ہے۔ صدر اوباما نے سورة الحجرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خدا نے لوگوں کو قبائل میں پیدا کیا تاکہ پہچان ہو سکے جبکہ کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت نہیں۔ مزید آیت مبارکہ کے حوالے سے کہا کہ کسی بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ سنی میں تفریق افسوس ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی 1.6 ارب آبادی نسل و رنگ پر مشتمل ہے“۔ یاد رہے کہ صدر اوباما نے مسجد کا دورہ ایسے وقت میں کیا جب اپوزیشن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے اور مسلمانوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی کے مسلم مخالف بیان دیئے ہیں۔ صدر اوباما نے نہ صرف صدارتی امیدوار کے مسلم مخالف بیانات کا جواب دیا بلکہ انہوں نے مسلمانوں کا بھرپور دفاع بھی کیا۔ صدر اوباما نے امریکیوں پر زور دیا کہ ایسی سیاست کو مسترد کر دیا جائے جس میں نسل یا مذہب کی بنیاد پر لوگون کو ہدف بنایا جائے۔
ان سے پہلے امریکی صدارت کی دوڑ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کی خواہشمند صدارتی امیدوار اور سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ اس وقت امریکہ بھر میں موجود اسلام فوبیا سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم سب اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔امریکی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے کہا کہ امریکہ کا آئین ہر کسی کو بلاامتیاز و تفریق رنگ و نسل اور مذہب تمام حقوق فراہم کرتا ہے اور یہی امریکہ کی خوبی ہے کہ وہ اپنے دامن میں ہر کسی کو جگہ دیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ کے لوگ بہت سوچ سمجھ کر ووٹ دیں۔اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ کونسا امیدوار اپنے پروگرام کے ذریعے امریکہ کو مزید بہتر اور خوشحال بنانے کا اہل ہے۔ انہوں نے کہاکہ نوجوان افراد کو چاہئے کہ وہ آگے آئیں اور انتخابات میں بھرپور حصہ لیں۔ انہوں نے کہاکہ میں انتخابی مہم چلانے والوں اور میرے سٹاف کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔انہوں نے کہاکہ میرا مشن یہی ہے کہ امریکی خواب جن لوگوں نے اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں کہ تعلیم سستی ہو، صحت اور علاج معالجہ کیلئے ہر کسی کی رسائی ہو اور امریکہ کی حفاظت کے لئے جامع اور مربوط پروگرام ہو یہ سب کچھ ہمارے مشن کا حصہ ہے۔ امریکہ میں شاہد خان۔ذی چوہدری اور عتیق خان جیسے عظیم مسلمان اپنے امریکی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ یقینا مسلمان امریکی معاشرے کا اثاثہ ہیں اور وہ محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین اور پر امن بھی ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ امریکہ معاشرہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے انتہا پسندوں کو مسترد کر کے اپنی اعتدال پسندی کا ثبوت دے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *