فرات مغربی ایشیا ءکا سب سے بڑا اور لمبا دریا ہے۔ ”دجلہ“ اور ”فرات“ میسو پوٹیمیا کی قدیم تارین تاریخ کے دریا ہیں ۔دجلہ و فرات ترکی سے پھوٹتے اور عراق و شام سے گزرتے ہوئے ”شط العرب “ نامی ڈیلٹا کی صورت اختیار کرتے ہےں جو بالآخر بحر فارس میں جا گرتا ہے

۔ دجلہ (Tigris) عراق کا ایک دریا جو کردستان کی پہاڑیوں سے نکل کر عراق کے میدان کو سیراب کرتا ہوا دریائے فرات کے ساتھ آملتا ہے۔ ان دونوں دریا¶ں کے مجموعی دھارے کوشط العرب کہتے ہیں۔ یہ دریا بغداد تک ”یعنی 50 میل“ جہاز رانی کے قابل ہے۔ اس کے کنارے نینوا اور دیگر قدیم شہروں کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اور قط العمارہ، بغداد،سامرا اور موصل کے شہر آباد ہیں۔ دریا میں تقریبا ہر سال طغیانی آ جاتی ہے جس سے گرد و نواح کا علاقہ سیراب ہوتا ہے۔ اور یہاں کی زرخیزی اسی دریا کی بدولت ہے۔ فرات کا نام قدیم فارسی کے لفظ ”افراتو“ سے نکلا ہے جو آوستان کے لفظ hu-perethua کا ماخذ ہے۔ چند ماہرین کا کہنا ہے کہ فرات کا لفظ کرد زبان سے نکلا ہے۔ کرد میں ”فر“ کا مطلب ہے چوڑا ، ”ری“ کا مطلب بہتا پانی اور ”ہات“ کا مطلب بہنا ہے۔ اسطرح ”فر ریہات“ کا مطلب وسیع پیمانے پر بہتا پانی ہوا۔ کرد زبان میں دریا کا جدید نام ”فرات “ پرانے نام ”فر ریہات“ سے نکلا ہے۔ دریائے فرات تقریباً دو ہزار 780 کلومیٹر (ایک ہزار730میل) طویل ہے۔ یہ دو شاخوں کارا (مغربی فرات) اور مراد (مشرقی فرات) سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ کارا موجودہ مشرقی ترکی میں ار ض روم کے شمال میں آرمینیائی سطح مرتفع سے جبکہ مراد جھیل وان کے شمال میں کوہ ارارات کے جنوب مغرب سے نکلتا ہے۔ دریائے فرات کھائیوں اور گھاٹیوں میں سے ہوتا ہوا جنوب مشرقی شام سے عراق میں داخل ہوتا ہے۔ خبور اور بلخ دریا مشرقی شام میں دریائے فرات میں گرتے ہیں۔ اس سے نیچے آتے ہوئے دریائے فرات میں کوئی مزید دریا نہیں گرتا۔ جنوبی عراق کے شہر بصرہ کے شمال میں دریائے فرات دریائے دجلہ میں گرتے ہوئے شط العرب نامی ڈیلٹا بناتا ہے اور دونوں دریا خلیج فارس میں گرتے ہیں۔ اس وسیع ڈیلٹا کے باعث یہ ایک بہت بڑے دلدلی علاقے کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ چند احادیث میں دریائے فرات میں سونے کے خزانے یا پہاڑ کا ذکر کیا گیا ہے۔ حال ہی میں دریائے فرات کی تہہ میں سے قدیم تہذیبوں کے آثار نمودار ہوئے ہیں۔
دریائے فرات و دجلہ
آغاز مشرقی ترکی
دہانہ شط العرب
میدان ممالک ترکی، شام،اردن، کویت، عراق
لمبائی 2800 کلومیٹر
منبع کی بلندی 4500 میٹر
اوسط بہا¶ 818 مکعب میٹر فی سیکنڈ
دریائی میدان کا رقبہ 765831 مربع کلومیٹر
دریائے فرات و دجلہ کا ذکر ، ذکرِحسینؓ سے خالی کیسے رہ سکتا ہے ۔ امام حسینؓ پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺکے چھوٹے نواسے علیؓ و فاطمہؓ زہرا کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ حسین نام اور ابو عبد اللہ کنیت تھی۔ ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنج شنبہ کے دن آپ کی ولادت ہوئی ۔ اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب ﷺ تشریف لائے ٬ بیٹے کو گود میں لیا ٬ داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی۔ پیغمبرﷺ کا مقدس لعاب دہن حسینؓ کی غذا بنا ۔ ساتویں دن عقیقہ کیا گیا۔ آپؓ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جاتی تھی مگر آنے والے حالات کاعلم پیغمبرﷺ کی انکھوں میں آنسو برساتا تھا۔
پیغمبراسلام ﷺکی گود جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دن بھردو بچّوں کی پرورش میں مصروف ہوئی ایک حسنؓ دوسرے حسینؓ اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے ایک طرف پیغمبر ُ اسلام ﷺجن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ؓابن ابی طالب جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہؓ زہرا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبرﷺ کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے تھیں ۔اس نورانی ماحول میں حسینؓ کی پرورش ہوئی۔
حضرت محمد مصطفےٰ ﷺاپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے ۔ سینہ پر بیٹھاتے تھے۔ کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو ۔مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ امتیاز خاص رکھتے تھے ۔ایسا ہو اہے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین ؓپشت ُ مبارک پرآگئے تو سجدہ میں طول دیا ۔ یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ہوگیا۔اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ہوئے حسین ؓمسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ”دیکھو یہ حسین ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو “۔ رسول ﷺنے حسینؓ کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ”حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں“ مستقبل نے بتادیا کہ رسول ﷺکا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دُنیا میں حسین کی بدولت قائم رہیگا ۔
امام حسینؓ کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے نانا ﷺ کاسایہ سر سے اٹھ گیا ۔ امرا المومنین حضرت ابوبکر ؓ، عمرؓ اور عثمان ؓکا دورخلافت دیکھنے کے دوران آپؓ نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا ۔35ھ میں جب حسینؓ کی عمر 31 برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علیؓ ا بن ابی طالب کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا ۔ یہ امیر المومنین حضرت علی ؓ کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میں جمل صفین اور نہروان کی لڑائیاں ہوئیں۔40ھ میں جنابعلی ؓ مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسنؓ کے سپرد ہوئیں جو حضرت امام حسین ؓکے بڑے بھائی تھے ۔کچھ عرصے بعد بزرگی اور مرتبے کو مقدم جانتے ہوئے امام حسن ؓنےخلافت حضرت امیر معاویہؓ کے حوالے کر دی تھی تو امام حسینؓ بھی اس مصلحت پر راضی ہوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رہے ۔ امام حسینؓ عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپ کی عبادت٬ آپ کے زہد٬ آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال واخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے۔ پچیس حج آپ نے باپیادہ کئے۔ آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاںپایا کہ فرمایا”حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ہے۔“ چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا۔ اس وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ہو گیاتھا۔ راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب محتاج بیواں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے۔حضرت ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ” جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمہارے سامنے سوال کے لیے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمہارے ہاتھ بیچ ڈالی۔ اب تمہارا فرض یہ ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو٬ کم سے کم اپنی ہی عزتِ نفس کا خیال کرو۔“ غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتا¶ کرتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر آپ انہیں آزاد کر دیتے تھے۔آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا۔ مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ آپ رحمدل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔ن تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ راستے میں چند مساکین بیٹھے ہوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رہے تھے اور آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت فوراً زمین پر بیٹھ گئے۔ اگرچہ کھانے میں شرکت نہیں فرمائی اس بناءپر کہ صدقہ آلِ محمد ﷺ پر حرام ہے مگر ان کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نہیں ہوا۔اس خاکساری کے باوجود آپ کی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماہوتے تھے لوگ نگاہ اٹھا کر بات نہیں کرتے تھے۔ آپ کی اخلاقی جراَت ٬ راست بازی و راست کرداری ٬ قوتِ اقدام٬ جوش عمل، ثبات و استقلال اور صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ہیں۔ ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ہٹے۔انہوں نے بحیثیت ایک راہنما کے کربلا میں ایک پوری جماعت کی قیادت کی۔
حضرت امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد یزیدنے اسلامی نظام خلافت کے برعکس وراثتی سیاست کی ابتدا کرتے ہوئے حضرت امیر معاویہ ؓ کے جانشین ہونے کا اعلان کر دیا۔ اور تمام مسلمانوں سے اپنی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی اور زور و زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکوا دیا -اس کے اس عمل کی راہ میں حضرت امام حسین ؓ آڑے آئے اور انہوں نے یزید کی بیعت کو روکنے کے لیے اپنے ہاتھ پر بیعت شروع کروا دی۔جب مسلمانوں نے حضرت امام حسین ؓ کے ہاتھ پر بیعت شروع کی تو یزید نے مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اور خاندان رسول کو میدان ”کربلا “میں روک کر نہ صرف” قید“ کر دیا بلکہ انہیں جھکانے کے لیے پانی و خوراک بھی بند کر دی اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کی بیعت کریں۔ امام حسین ؓ نے اس بات سے انکار کیا۔ جس پر انہیں اپنے رفقا سمیت شہیدکر دیاگیا۔ اور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیاگیا۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔حضرت امام حسینؓ نے 10محرم الحرام 61ھ کو جو عظیم قربانی دی اس واقع کو کئی صدیاں گزر گئیں مگر یہ آج بھی اپنی تروتازگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آزادی کے متوالوں، ظلم سے ٹکرانے والوں، حق کا پرچم بلند کرنے والوں، امر بالمعروف ونہی ازمنکر کا پرچم تھامنے والوں اور غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دینے والوں کے لیے کربلا آج بھی مشعل راہ ہے۔ تحریک کربلا میں ہر مذہب ومسلک اور زندگی کے ہرشعبے کے افراد کے لیے یکساں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس تحریک میں چھ ماہ کے بچے سے لیکر اسی سال کے بوڑھے تک اور پاکبازخواتین کے تاریخ ساز کردار سے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ غیر مذہب اور جاہل معاشرہ میںجو جانوروں کے پانی پینے پلانے پر طویل جنگوں میں مصروف رہتے تھے وہ بھی اس ماہ میں جنگ نہیں کرتے تھے۔اسلامی دنیا میں محرم کی اہمیت واقعہ کربلا کی وجہ سے زیادہ ہوگئی۔حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ بہت لمبا اور دل سوز ہے جس کو لکھنے کی مجھ میں طاقت نہیں اور پڑھنے کا حوصلہ آپ میںبھی نہ ہوگا۔ واقعہ کربلا میں 16اہل بیت سمیت 76افراد نے شہادت پائی۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وہ مظلوم، بے کس بے بس اور لاچار مسلمان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوئے۔کس طرح بیابان میں اپنے آبلوں سے کانٹوں سے تواضع کی، لو اور دھوپ کو دیکھا، تپتی ریت اور دہکتے کوئلوں کو ٹھنڈا کیا، جسم پر چرکے کھائے، سینے پر زخم سجائے، آخرمنزل مقصود پر پہنچ کر دم لیا، کامرانی وشادمانی کازریں تاج اپنے سر پر رکھااور پستی وگمنامی سے نکل کر شہرت، عزت اور عظمت کے عروج پر پہنچ گئے۔ امام حسین ؓعراق میں کربلا کے مقام پر مدفون ہیں۔ تاریخ اسلام میں دس محرم 60ھ کو سانحہ کربلا پیش آیا، اس لیے دس محرم کو یوم عاشورہ بھی کہا جاتا ہے ۔اسلامی دنیا میں دس محرم کو یوم عاشورہ اور سانحہ کربلا کی یاد کے حوالے سے مناتے ہیں اور سوگواران حسینؓ اور ساری دنیا اس معرکہ کرب و بلا سے آشنا ہوتی ہے اور آج بھی تکلیف، غم اور دکھ محسوس کرتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی دس محرم یعنی عاشوراءکا روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ روزہ کیسا ہے؟ یہود نے جواب دیا کہ یہ بڑا اچھا دن ہے، یہ وہی دن ہے جس دن بنو اسرائیل کو اللہ تعالی نے ان کے دشمن سے نجات دی تھی، تو حضرت موسی علیہ السلام نے بطور شکریہ اس دن کا روزہ رکھا تھا لہذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن کے روزہ کا حکم دیا۔ سانحہ کربلا انسانی تاریخ کا المیہ ہے۔ طاغوتی طاقتوں اور آمریت کے خلاف سرفروشانہ جد و جہد کربلا کا پیغام ہے۔ کربلا حق کی آواز تھی اور رہے گی۔
دس محرم الحرام ابتدا ہی سے تاریخ انسانی کا ایک اہم دن مانا جاتاہے۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں زندہ بچ جانے کا معجزہ، دریائے نیل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا با حفاظت نکل جانا اور فرعون کا غرق ہوجانا، طوفان نوح کے بعد کشتی کا سلامتی کے ساتھ کوہ جودی پر اترنا، حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے باہر نکلنا اور خشکی پر پہنچ جانا، یہ سب اہم واقعات دس محرم کو ہوئے۔ دس محرم ایک مقدس دن کا درجہ رکھتا ہے۔ اس دن کے لیے یہ بھی روایات بھی ملتی ہےں کہ قیامت دس محرم کو قائم ہوگی۔یوم عاشور کو ہی حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یوم عاشور کو ہی آتش نمرود سے نجات دی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اسی دن تورات نازل کی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کی قربانی قبول کی اور ان کی جگہ دنبے کا فدیہ عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل سے چھٹکارا دلایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو قوت بینائی واپس دی۔ حضرت ایوب علیہ السلام سے مصیبتیں اور پریشانیاں دور کی گئیں۔ یوم عاشور کو ہی حضرت امام حسین نے دین کی خاطر ساتھیوں سمیت قربانی دے کر اس دن کو تا قیامت امر کردیا۔